Monday, 28 April 2025

ستمگر کی ستائش ہو رہی ہے

 ستمگر کی ستائش ہو رہی ہے

ثمر ور اس کی خواہش ہو رہی ہے

نہ پھر فصلِ بہار آ جائے چمن میں

مسلسل ایسی سازش ہو رہی ہے

بباطن بِک رہی ہے جنسِ نفرت

محبت کی نمائش ہو رہی ہے

مِری راہوں کے کانٹے مجھ سے کہتے ہیں

تعلق کی نوازش ہو رہی ہے

وہ پیہم در گزر فرما رہے ہیں

مسلسل مجھ سے لغزش ہو رہی ہے

خدا ثابت قدم رکھے ولی کو

خودی کی آزمائش ہو رہی ہے


ولی مدنی

No comments:

Post a Comment