کھل اٹھا تھا جو گلشن باغباں کی کاوش سے
وہ اجڑ گیا آخر، موسموں کی سازش سے
کوہسار و صحرا ہوں، کھیت ہوں کہ ندیاں ہوں
مستفیض ہوتے ہیں ابر کی تراوش سے
جو خوشی سے آئے گا، جائے گا وہ افسردہ
فائدہ ہی کیا آخر زخم کی نمائش سے
اب تو اونچی قیمت پر محکموں میں بکتی ہے
دن گئے کہ ملتی تھی نوکری سفارش سے
دل پہ کیا گزرتی ہے، شامِ غم، شبِ ہجراں
ہم گزر چکے یارو ایسی آزمائش سے
ہے قلم رفیق اپنا اور اپنی تنہائی
بھر چکا ہے جی اپنا بزمِ رنگ و رامش سے
کوئی دل کے اندر سے مجھ پہ جبر کرتا ہے
کب سعید کہتا ہوں شعر اپنی خواہش سے
جے پی سعید
No comments:
Post a Comment