گہرے سمندروں کی تہوں سے اٹھا کروں
ہوں سیل، ساحلوں پہ جواہر بکھیر دوں
طوفان ان گنت رہے بحرِ حیات میں
تحلیل پانیوں میں ہوا جسم کا ستوں
اک دن برس کے ابر یہ قدغن لگا گیا
اپنے بدن کی آگ میں ہر شب جلا کروں
خاموشیوں کا شور بہت آس پاس ہے
جو آ رہی ہے دور سے آواز کیا سنوں
پہلی نظر پڑے تو برہنہ دکھائی دے
ملتا ہے تیری جلد سے رنگ لباس یوں
شاہد کوئی صدا تجھے پتھر بنا نہ دے
شہر طلسم ہے یہاں مڑ کے نہ دیکھ لوں
شاہد شیدائی
No comments:
Post a Comment