وہ بھی اداس اداس ہیں ہم بھی اداس اداس
یعنی نہ ان کے پاس خوشی ہے نہ میرے پاس
بجھتی نہیں بجھائے کسی طرح دل کی پیاس
دل ہے کہ چھوڑتا نہیں کم بخت پھر بھی آس
مانا بدل کے رکھ دی بشر نے یہ کائنات
ہائے، مگر حیات کے تن پر وہی لباس
مدت ہوئی ہے بچھڑے ہوئے مجھ کو دوست سے
لگتا ہے لیکن آج بھی بیٹھا ہے کوئی پاس
رکھ دی ہے زندگی کی کلائی مروڑ کے
اس تشنگی نے جس کو میسر نہیں گلاس
کُل عُمر کشمکش کا یہ حاصل ہے اے حیات
میں تجھ کو راس آیا نہ تُو آئی مجھ کو راس
اشرف انہیں سے پوچھیے لذت شکست کی
دیتے رہے فریب جنہیں رات دن قیاس
اشرف باقری
No comments:
Post a Comment