Wednesday, 16 April 2025

وہ بھی اداس اداس ہیں ہم بھی اداس اداس

 وہ بھی اداس اداس ہیں ہم بھی اداس اداس

یعنی نہ ان کے پاس خوشی ہے نہ میرے پاس

بجھتی نہیں بجھائے کسی طرح دل کی پیاس

دل ہے کہ چھوڑتا نہیں کم بخت پھر بھی آس

مانا بدل کے رکھ دی بشر نے یہ کائنات

ہائے، مگر حیات کے تن پر وہی لباس

مدت ہوئی ہے بچھڑے ہوئے مجھ کو دوست سے

لگتا ہے لیکن آج بھی بیٹھا ہے کوئی پاس

رکھ دی ہے زندگی کی کلائی مروڑ کے

اس تشنگی نے جس کو میسر نہیں گلاس

کُل عُمر کشمکش کا یہ حاصل ہے اے حیات

میں تجھ کو راس آیا نہ تُو آئی مجھ کو راس

اشرف انہیں سے پوچھیے لذت شکست کی

دیتے رہے فریب جنہیں رات دن قیاس


اشرف باقری

No comments:

Post a Comment