Saturday, 26 April 2025

عجیب شے ہے کہ صورت بدلتی جاتی ہے

 عجیب شے ہے کہ صورت بدلتی جاتی ہے

یہ شام جیسے مقابر میں ڈھلتی جاتی ہے

چہار سمت سے تیشہ زنی ہوا کی ہے

یہ شاخ سبز کہ ہر آن پھلتی جاتی ہے

پہنچ سکوں گا فصیل بلند تک کیسے

کہ میرے ہاتھ سے رسی پھسلتی جاتی ہے

کہیں سے آتی ہی جاتی ہے نیند آنکھوں میں

کسی کے آنے کی ساعت نکلتی جاتی ہے

نگہ کو ذائقۂ خاک ملنے والا ہے

کہ ساحلوں کی طرف ناؤ چلتی جاتی ہے


عبدالحمید

No comments:

Post a Comment