ہر اک بات میں تھا حجاب اول اول
نہ یوں تم تھے حاضر جواب اول اول
وفادار اغیار کا اب لقب ہے
کبھی تھا یہ میرا خطاب اول اول
ازل ہی سے کوثر کی لہروں میں ڈوبے
ہوئے غرق موجِ شراب اول اول
کسی شوخ کی ہائے اٹھتی جوانی
وہ اپنا بھی جوشِ شباب اول اول
خدائی میں مثل اس صنم کا نہ نکلا
جسے کر دیا انتخاب اول اول
جوانی میں رندی، ضعیفی میں توبہ
ثواب آخر آخر، جواب اول اول
نیاز ابتداء کا تھا ناز ابتداء کا
سوال اول اول، جواب اول اول
شہیر اب اسی شے کا چسکا پڑا ہے
ہمیں جس سے تھا اجتناب اول اول
شہیر مچھلی شہری
No comments:
Post a Comment