Wednesday, 9 April 2025

ہر اک بات میں تھا حجاب اول اول

 ہر اک بات میں تھا حجاب اول اول

نہ یوں تم تھے حاضر جواب اول اول

وفادار اغیار کا اب لقب ہے

کبھی تھا یہ میرا خطاب اول اول

ازل ہی سے کوثر کی لہروں میں ڈوبے

ہوئے غرق موجِ شراب اول اول

کسی شوخ کی ہائے اٹھتی جوانی

وہ اپنا بھی جوشِ شباب اول اول

خدائی میں مثل اس صنم کا نہ نکلا

جسے کر دیا انتخاب اول اول

جوانی میں رندی، ضعیفی میں توبہ

ثواب آخر آخر، جواب اول اول

نیاز ابتداء کا تھا ناز ابتداء کا

سوال اول اول، جواب اول اول

شہیر اب اسی شے کا چسکا پڑا ہے

ہمیں جس سے تھا اجتناب اول اول


شہیر مچھلی شہری

No comments:

Post a Comment