Thursday, 17 April 2025

یوں پلٹتی ہے ہر ایک دعا باب اثر سے

 یوں پلٹتی ہے ہر ایک دعا باب اثر سے

جیسے کوئی ناکام چلا آئے سفر سے

ہو جائے عیاں تم پہ بھی دنیا کی حقیقت

دنیا کو اگر دیکھ لو تم میری نظر سے

یہ بات الگ ہے کہ نہیں فُرصتِ پُرسش

واقف تو یہ دنیا ہے میرے دردِ جگر سے

جو کر نہ سکا اپنی ہی شاخوں کی حفاظت

کیوں چھاؤں کی امید ہو اس خشک شجر سے

حیوانوں کو انسانوں سے بہتر جہاں پایا

کچھ ایسے مقامات بھی گزرے ہیں نظر سے

اے پیرِ مغاں! کیا یہی انصاف ہے تیرا؟

سیراب کوئی ہو، کوئی اک بوند کو ترسے

با ہوش ہی روتے ہیں شب و روز کا رونا

دیوانے کو مطلب نہیں کچھ شام و سحر سے

شاید تمہیں ساقی کی ہو پھر کل بھی ضرورت

کیوں آج گراتے ہو اسے اپنی نظر سے


ساقی لکھنوی

اولاد علی رضوی

No comments:

Post a Comment