یوں پلٹتی ہے ہر ایک دعا باب اثر سے
جیسے کوئی ناکام چلا آئے سفر سے
ہو جائے عیاں تم پہ بھی دنیا کی حقیقت
دنیا کو اگر دیکھ لو تم میری نظر سے
یہ بات الگ ہے کہ نہیں فُرصتِ پُرسش
واقف تو یہ دنیا ہے میرے دردِ جگر سے
جو کر نہ سکا اپنی ہی شاخوں کی حفاظت
کیوں چھاؤں کی امید ہو اس خشک شجر سے
حیوانوں کو انسانوں سے بہتر جہاں پایا
کچھ ایسے مقامات بھی گزرے ہیں نظر سے
اے پیرِ مغاں! کیا یہی انصاف ہے تیرا؟
سیراب کوئی ہو، کوئی اک بوند کو ترسے
با ہوش ہی روتے ہیں شب و روز کا رونا
دیوانے کو مطلب نہیں کچھ شام و سحر سے
شاید تمہیں ساقی کی ہو پھر کل بھی ضرورت
کیوں آج گراتے ہو اسے اپنی نظر سے
ساقی لکھنوی
اولاد علی رضوی
No comments:
Post a Comment