Thursday, 17 April 2025

جب ناؤ بھنور میں پھنستی ہے اور دور کنارا ہوتا ہے

 جب ناؤ بھنور میں پھنستی ہے اور دور کنارا ہوتا ہے

ایسے میں ہم مجبوروں کو بس تیرا سہارا ہوتا ہے

اک بار ذرا تم آنے کی زحمت تو کرو، دیکھو تو سہی

فُرقت کی اندھیری راتوں میں کیا حال ہمارا ہوتا ہے

اک درد سا دل میں ہوتا ہے، اک ٹیس جگر میں اُٹھتی ہے

جب یاد تمہاری آتی ہے، جب ذِکر تمہارا ہوتا ہے

کمزور سہی، مجبور سہی، میں کچھ بھی سہی، کچھ بھی نہ سہی

ملتا ہے مگر ہر اوج مجھے، جب ان کا اشارہ ہوتا ہے

پوچھو نہ غمِ اُلفت کا مزہ، یہ اہلِ خِرد ہیں بے بہرہ

ہم لذتِ غم سے واقف ہیں، غم ہم کو گوارہ ہوتا ہے

اوروں کے غموں پر کرتا ہے قُربان جو اپنی راحت کو

ہر دل میں جگہ پا جاتا ہے، ہر آنکھ کا تارا ہوتا ہے

ہر چند غبار! اس دنیا میں ناچیز ہے تُو، بے قدر ہے تُو

مایوس نہ ہو، وہ چاہیں تو ذرہ بھی ستارا ہوتا ہے


غبار کرتپوری

قاضی التفات حسین انصاری

No comments:

Post a Comment