جب ناؤ بھنور میں پھنستی ہے اور دور کنارا ہوتا ہے
ایسے میں ہم مجبوروں کو بس تیرا سہارا ہوتا ہے
اک بار ذرا تم آنے کی زحمت تو کرو، دیکھو تو سہی
فُرقت کی اندھیری راتوں میں کیا حال ہمارا ہوتا ہے
اک درد سا دل میں ہوتا ہے، اک ٹیس جگر میں اُٹھتی ہے
جب یاد تمہاری آتی ہے، جب ذِکر تمہارا ہوتا ہے
کمزور سہی، مجبور سہی، میں کچھ بھی سہی، کچھ بھی نہ سہی
ملتا ہے مگر ہر اوج مجھے، جب ان کا اشارہ ہوتا ہے
پوچھو نہ غمِ اُلفت کا مزہ، یہ اہلِ خِرد ہیں بے بہرہ
ہم لذتِ غم سے واقف ہیں، غم ہم کو گوارہ ہوتا ہے
اوروں کے غموں پر کرتا ہے قُربان جو اپنی راحت کو
ہر دل میں جگہ پا جاتا ہے، ہر آنکھ کا تارا ہوتا ہے
ہر چند غبار! اس دنیا میں ناچیز ہے تُو، بے قدر ہے تُو
مایوس نہ ہو، وہ چاہیں تو ذرہ بھی ستارا ہوتا ہے
غبار کرتپوری
قاضی التفات حسین انصاری
No comments:
Post a Comment