Monday, 28 April 2025

گھر سے باہر نکل کے دیکھ ذرا

 گھر سے باہر نکل کے دیکھ ذرا

کون صحرا میں دے گیا ہے صدا

میں نے جب اس کی خیریت پوچھی

اس نے باتوں میں مجھ کو ٹال دیا

کتنے پنکھے لگا دئیے چھت میں

پھر بھی گرمی کا زور کم نہ ہوا

اونچی اونچی عمارتوں میں کہاں

جو سکوں دل کو جھونپڑے میں ملا

ساتھ چلتے ہیں لوگ پل دو پل

طے ہوا ہے ہر اک سفر تنہا

آ کے جنگل میں چین سے رہیے

رات اک بھیڑیا پکار گیا

حیدرآباد میں علی اصغر

ایک میلہ سا مقبروں پہ لگا


علی اصغر

No comments:

Post a Comment