Tuesday, 29 April 2025

اکیلی رات تھی چاروں طرف اندھیرا تھا

 اکیلی رات تھی چاروں طرف اندھیرا تھا

اور ایک پیڑ سے میرا ہی ہاتھ نکلا تھا

عجیب دھن تھی کہ بڑھتے ہی جا رہے تھے قدم

ہر اک طرف سے مجھے آندھیوں نے گھیرا تھا

نظر تو آئے تھے ہم کو بھی پاؤں اٹھتے ہوئے

پھر اس کے بعد بہت دور تک اندھیرا تھا

بکھر رہے تھے اندھیرے ہمارے سر پہ مگر

افق سے تا بہ افق چاندنی کا ڈیرا تھا

میرے خیال میں آ کر نکل گیا وہ رنگ

جو آسماں پہ ہرا اور زمیں پہ نیلا تھا

سبھی کی انگلیاں اٹھی تھیں بس مری جانب

نہ جانے میں نے یہ کس کا لباس پہنا تھا

چمک رہے تھے ستارے جہاں جہاں اجمل

وہیں وہیں پہ ذرا آسمان گہرا تھا


نسیم اجمل

No comments:

Post a Comment