Wednesday, 9 April 2025

کہوں دنیا میں اب میں کس سے جا کر

 کہوں دنیا میں اب میں کس سے جا کر

اگر کرنا ہے کچھ تھوڑی وفا کر

ہمارے بخت میں آنسو نہیں ہیں

کوئی حاصل نہیں دریا بہا کر

میں خالی چشم لوٹ آیا دوبارہ

تُو دریا ہے تو دو آنسو عطا کر

یہ دُنیا ہو کہ عُقبیٰ، امتحاں ہے

کوئی گوشہ پکڑ خُود کو پڑھا کر

نہ حاصل کا نہ غم لا حاصلی کا

اُٹھا ہاتھ اپنے اور خالی دُعا کر

میں اشرف بھی یہاں برباد بھی ہوں

وہ بے شک خوش ہے یہ دُنیا بسا کر

میں پھینک آیا ہوں دل دشتِ نہی میں

اب اک قصہ ہے چاہے تو سُنا کر

گِلہ کیا کیجیے اس زندگی سے

ملِی حسرت تمنائیں سجا کر

پُکارا تھا اسے آباد کر دے

وہ جاتا ہے ہمارے دل کو ڈھا کر

ہے انصاری تو پھر یہ مانگنا کیا

اکیلے میں کہیں تنہا صدا کر


طارق غازی

No comments:

Post a Comment