کہوں دنیا میں اب میں کس سے جا کر
اگر کرنا ہے کچھ تھوڑی وفا کر
ہمارے بخت میں آنسو نہیں ہیں
کوئی حاصل نہیں دریا بہا کر
میں خالی چشم لوٹ آیا دوبارہ
تُو دریا ہے تو دو آنسو عطا کر
یہ دُنیا ہو کہ عُقبیٰ، امتحاں ہے
کوئی گوشہ پکڑ خُود کو پڑھا کر
نہ حاصل کا نہ غم لا حاصلی کا
اُٹھا ہاتھ اپنے اور خالی دُعا کر
میں اشرف بھی یہاں برباد بھی ہوں
وہ بے شک خوش ہے یہ دُنیا بسا کر
میں پھینک آیا ہوں دل دشتِ نہی میں
اب اک قصہ ہے چاہے تو سُنا کر
گِلہ کیا کیجیے اس زندگی سے
ملِی حسرت تمنائیں سجا کر
پُکارا تھا اسے آباد کر دے
وہ جاتا ہے ہمارے دل کو ڈھا کر
ہے انصاری تو پھر یہ مانگنا کیا
اکیلے میں کہیں تنہا صدا کر
طارق غازی
No comments:
Post a Comment