Wednesday, 16 April 2025

نہ تو آغاز نہ انجام پہ رونا آیا

 نہ تو آغاز نہ انجام پہ رونا آیا

اپنی دقت کی ہر اک شام پہ رونا آیا

اہل محفل کو ہوئی شمع کے جلنے کی خوشی

مجھ کو پروانے کے انجام پہ رونا آیا

دل سے ابھرا تو نگاہوں کے دریچے سے گرا

اشک بنتے ہوئے ہر جام پہ رونا آیا

وقت رخصت جو نگاہوں نے تِری مجھ کو دیا

یاس و امید کے پیغام پہ رونا آیا

ہم غریبوں کی بھلا صبح کہاں شام کہاں

صبح پر اشک بہے شام پہ رونا آیا

میری تقدیر میں در در کا بھٹکنا تھا کنول

حسن آغاز کے انجام پہ رونا آیا


کنول سیالکوٹی

No comments:

Post a Comment