نہ تو آغاز نہ انجام پہ رونا آیا
اپنی دقت کی ہر اک شام پہ رونا آیا
اہل محفل کو ہوئی شمع کے جلنے کی خوشی
مجھ کو پروانے کے انجام پہ رونا آیا
دل سے ابھرا تو نگاہوں کے دریچے سے گرا
اشک بنتے ہوئے ہر جام پہ رونا آیا
وقت رخصت جو نگاہوں نے تِری مجھ کو دیا
یاس و امید کے پیغام پہ رونا آیا
ہم غریبوں کی بھلا صبح کہاں شام کہاں
صبح پر اشک بہے شام پہ رونا آیا
میری تقدیر میں در در کا بھٹکنا تھا کنول
حسن آغاز کے انجام پہ رونا آیا
کنول سیالکوٹی
No comments:
Post a Comment