رینگتی راتوں سے ڈسواتے رہے
ہم فریبِ دوستی کھاتے رہے
جاگتی آنکھوں میں خوابوں کے محل
خود بناتے اور خود ڈھاتے رہے
لاکھ ان کی آبیاری کی، مگر
بے رُتوں کے پھول مُرجھاتے رہے
آخرش وہ بھی مقابل آ گئی
زندگی ہم جس سے کتراتے رہے
خود ہی وہ بیتاب گھائل ہو گئے
تیر نفرت کے جو برساتے رہے
محمد حفیظ بیتاب
No comments:
Post a Comment