Sunday, 27 April 2025

رینگتی راتوں سے ڈسواتے رہے

 رینگتی راتوں سے ڈسواتے رہے

ہم فریبِ دوستی کھاتے رہے

جاگتی آنکھوں میں خوابوں کے محل

خود بناتے اور خود ڈھاتے رہے

لاکھ ان کی آبیاری کی، مگر

بے رُتوں کے پھول مُرجھاتے رہے

آخرش وہ بھی مقابل آ گئی

زندگی ہم جس سے کتراتے رہے

خود ہی وہ بیتاب گھائل ہو گئے

تیر نفرت کے جو برساتے رہے


محمد حفیظ بیتاب

No comments:

Post a Comment