میری حالت پہ ذرا سا بھی نہ حیراں ہوتے
آپ اگر میری طرح چاک گریباں ہوتے
جو نہیں ہوتا تِرے حسن کا پرتَو ان میں
پھر یہ گلشن مِری نظروں میں بیاباں ہوتے
ربط کی راہ میں تھا آگ کا دریا یا رب
راستے ترکِ تعلق کے تو آساں ہوتے
بے وفا ہم نے کبھی غیر نہ سمجھا تجھ کو
عمر کاٹی تِری جانب سے پشیماں ہوتے
آپ آئے نہ مِرے ساتھ یہ اچھا ہی ہوا
بے سبب آپ مِرے ساتھ پریشاں ہوتے
اب کو اپنی ہی مسیحائی کا دعویٰ ہے خیال
اس مِرے شہر کے لوگوں میں انساں ہوتے
پریہ درشی خیال
No comments:
Post a Comment