Thursday, 24 April 2025

میری حالت پہ ذرا سا بھی نہ حیراں ہوتے

 میری حالت پہ ذرا سا بھی نہ حیراں ہوتے

آپ اگر میری طرح چاک گریباں ہوتے

جو نہیں ہوتا تِرے حسن کا پرتَو ان میں

پھر یہ گلشن مِری نظروں میں بیاباں ہوتے

ربط کی راہ میں تھا آگ کا دریا یا رب

راستے ترکِ تعلق کے تو آساں ہوتے

بے وفا ہم نے کبھی غیر نہ سمجھا تجھ کو

عمر کاٹی تِری جانب سے پشیماں ہوتے

آپ آئے نہ مِرے ساتھ یہ اچھا ہی ہوا

بے سبب آپ مِرے ساتھ پریشاں ہوتے

اب کو اپنی ہی مسیحائی کا دعویٰ ہے خیال

اس مِرے شہر کے لوگوں میں انساں ہوتے


پریہ درشی خیال

No comments:

Post a Comment