Tuesday, 15 April 2025

سو داغ تمناؤں کے ہم کھائے ہوئے ہیں

 سو داغ تمناؤں کے ہم کھائے ہوئے ہیں

گل جتنے ہیں اس باغ میں مرجھائے ہوئے ہیں

شرمندہ ہوں میں اپنی دعاؤں کے اثر سے

وہ آج پریشان ہیں گھبرائے ہوئے ہیں

خودداریٔ گیسو کا ہے اس رخ پہ یہ عالم

جھکنا جو پڑا ان کو تو بل کھائے ہوئے ہیں

اب تم بھی ذرا حسن جہاں سوز کو روکو

ہم تو دل بے تاب کو سمجھائے ہوئے ہیں

اے دست کرم پھینک دے کونین کو اس میں

دامن کو تِرے سامنے پھیلائے ہوئے ہیں

پھوڑیں گے جبیں اب تِرے در پر تِرے محتاج

برباد ہیں تقدیر کے ٹھکرائے ہوئے ہیں

آتا ہے بڑھا بحر کرم جوش میں کیفی

ہم اپنے گناہوں پہ جو شرمائے ہوئے ہیں


کیفی چریاکوٹی

No comments:

Post a Comment