Monday, 14 April 2025

بات تو جب ہے کہانی پاؤں کے چھالے کہیں

 بات تو جب ہے کہانی پاؤں کے چھالے کہیں

حال سارا منہ زبانی پاؤں کے چھالے کہیں

چل مگر اگلے سفر کی ایک یہ بھی شرط ہے

ہر قدم کی جاں فشانی پاؤں کے چھالے کہیں

میں سناؤں گا ٹھہر کر داستاں تفصیل سے

تب تلک کربِ نہانی پاؤں کے چھالے کہیں

کس تمنا میں کٹا ہے زندگانی کا سفر

خون کو کر کر کے پانی پاؤں کے چھالے کہیں

یہ خرد کی موت کا ہے پیش خیمہ دوستو

آگہی کا ناگہانی پاؤں کے چھالے کہیں

کون سمجھے گا اشاروں سے مسافت کی زباں

پھوٹ کر لفظ و معانی پاؤں کے چھالے کہیں


اسحٰق اثر

No comments:

Post a Comment