بات تو جب ہے کہانی پاؤں کے چھالے کہیں
حال سارا منہ زبانی پاؤں کے چھالے کہیں
چل مگر اگلے سفر کی ایک یہ بھی شرط ہے
ہر قدم کی جاں فشانی پاؤں کے چھالے کہیں
میں سناؤں گا ٹھہر کر داستاں تفصیل سے
تب تلک کربِ نہانی پاؤں کے چھالے کہیں
کس تمنا میں کٹا ہے زندگانی کا سفر
خون کو کر کر کے پانی پاؤں کے چھالے کہیں
یہ خرد کی موت کا ہے پیش خیمہ دوستو
آگہی کا ناگہانی پاؤں کے چھالے کہیں
کون سمجھے گا اشاروں سے مسافت کی زباں
پھوٹ کر لفظ و معانی پاؤں کے چھالے کہیں
اسحٰق اثر
No comments:
Post a Comment