Wednesday, 16 April 2025

جو بے زباں ہیں ہمیشہ ستائے جاتے ہیں

 جو بے زباں ہیں ہمیشہ ستائے جاتے ہیں

اسی لیے تو ستم دل پہ ڈھائے جاتے ہیں

کرو نہ فکر کبھی داغِ دل 💗 کا اے لوگو

چراغ ہجر کے یونہی جلائے جاتے ہیں

انہیں بھی ایک نظر دیکھ لے مِرے ساقی

کہ تیری بزم میں پیاسے بھی پائے جاتے ہیں

تُو چارہ گر نہ سہی ضبطِ غم کی داد تو دے

کہ زخم کھا کے بھی ہم مسکرائے جاتے ہیں

یقین جن کی محبت کا ہے، انہیں شاہد

طرح طرح سے وہی آزمائے جاتے ہیں


فضل حق شاہد عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment