جو بے زباں ہیں ہمیشہ ستائے جاتے ہیں
اسی لیے تو ستم دل پہ ڈھائے جاتے ہیں
کرو نہ فکر کبھی داغِ دل 💗 کا اے لوگو
چراغ ہجر کے یونہی جلائے جاتے ہیں
انہیں بھی ایک نظر دیکھ لے مِرے ساقی
کہ تیری بزم میں پیاسے بھی پائے جاتے ہیں
تُو چارہ گر نہ سہی ضبطِ غم کی داد تو دے
کہ زخم کھا کے بھی ہم مسکرائے جاتے ہیں
یقین جن کی محبت کا ہے، انہیں شاہد
طرح طرح سے وہی آزمائے جاتے ہیں
فضل حق شاہد عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment