ہر راستہ افسردہ ہر ایک ڈگر چپ ہے
جو تم نہ آئے تو اب سارا نگر چپ ہے
ہر اشک میں ہوتی ہے مظلوم کہانی بھی
ہرگز نہ سمجھ لینا کہ دیدۂ تر چپ ہے
انداز کچھ ایسا ہے دنیا کا بتائیں کیا
الفاظ ہیں شرمندہ، احساسِ نظر چپ ہے
وہ کون سی آفت ہے حاصل جو نہیں ہم کو
یہ ظرف ہمارا ہے ہر آن مگر چپ ہے
معیں کو خدا رکھے رونق ہے اسی دم سے
وہ دور ہے جو گھر سے ہنگامہ گھر چپ ہے
معین الدین فیاضی
No comments:
Post a Comment