بستی بستی بھُوک اُگی ہے جنگل جنگل آگ
آج کا انساں کھیل رہا ہے اپنے خُوں سے پھاگ
سڑتی لاشوں کی بد بُو سے جینا ایک عذاب
شہر ہوس میں لگی ہوئی ہے ہر سُو آگ ہی آگ
اس نگری میں چھیڑ رہے ہو تم گُلاب کی بات
جس نگری کا بچہ بچہ ہے زہریلا ناگ
چشمِ زدن میں ڈھ جائے سب نفرت کی دیوار
بزمِ وفا میں چھیڑو یارو! ایسا کوئی راگ
اُدھر چھلکتے شیشہ و ساغر خالی اِدھر گلاس
ساقی سے کیا شکوہ کرنا اپنا اپنا بھاگ
جن کا مقدر لفظ شناسی سے محروم سمیع
میرے فن پر کرتے ہیں وہ تنقیدیں بے لاگ
سمیع سلطانپوری
سمیع اللہ
No comments:
Post a Comment