سب ہیں مصروف خون پینے میں
کون جھانکے کسی کے سینے میں
لہریں آداب کر کے اٹھتی ہیں
کون بیٹھا ہے اس سفینے میں
میر کے شعر تک نہیں ٹکتے
وہ خلا ہے ہمارے سینے میں
آنکھ میں اب نظر نہیں باقی
دل نہیں ہے کسی کے سینے میں
آنسوؤں سے لہو ندارد اور
خون شامل نہیں پسینے میں
یہی موسم ہے آؤ مر جائیں
پھول کھلتے ہیں اس مہینے میں
موت آواز دینے لگتی ہے
جی لگاتا ہوں جب بھی جینے میں
شہباز رضوی
No comments:
Post a Comment