Thursday, 24 April 2025

سب ہیں مصروف خون پینے میں

 سب ہیں مصروف خون پینے میں

کون جھانکے کسی کے سینے میں

لہریں آداب کر کے اٹھتی ہیں

کون بیٹھا ہے اس سفینے میں

میر کے شعر تک نہیں ٹکتے

وہ خلا ہے ہمارے سینے میں

آنکھ میں اب نظر نہیں باقی

دل نہیں ہے کسی کے سینے میں

آنسوؤں سے لہو ندارد اور

خون شامل نہیں پسینے میں

یہی موسم ہے آؤ مر جائیں

پھول کھلتے ہیں اس مہینے میں

موت آواز دینے لگتی ہے

جی لگاتا ہوں جب بھی جینے میں


شہباز رضوی

No comments:

Post a Comment