اس واسطے عدو کو گوارا نہیں تھا میں
مارا گیا تھا جنگ میں، ہارا نہیں تھا میں
مجھ سے ہی مجھ کو وقت نے تفریق کر دیا
جو تیرے سامنے تھا وہ سارا نہیں تھا میں
میں تیرے چونچلوں پہ انا کیسے بیچتا
اے زندگی! غلام تمہارا نہیں تھا میں
پہلو میں ہو جو دل تو ذرا پوچھ کر بتا
کل تک تمہاری آنکھ کا تارا نہیں تھا میں
اس شخص سے نباہ تیرا کیوں نہ ہو سکا
جس کی وجہ سے تجھ کو گوارہ نہیں تھا میں
دل ہی مِرا نصیر! بغاوت پہ تُل گیا
باہر کے دشمنوں سے تو ہارا نہیں تھا میں
نصیر بلوچ
No comments:
Post a Comment