میں اپنے جرم کا جب اعتراف کرتا ہوں
پھر اس کا فیصلہ اپنے خلاف کرتا ہوں
میں پہلے دیتا ہوں ترتیب حلقۂ احباب
پھر اپنے لوگوں کو اپنے خلاف کرتا ہوں
میں کیسے مان لوں ہر بات، آسماں تیری
زمین زاد ہوں، سو اختلاف کرتا ہوں
عجیب طرح کی دیکھی ہے روشنی خود میں
میں ایک عمر سے اپنا طواف کرتا ہوں
میں مانتا ہوں کہ مجھ سے بھی ہوتی رہتی ہیں
سو دوستوں کی خطائیں معاف کرتا ہوں
محمد علی ایاز
No comments:
Post a Comment