وہ منفرد ترا لہجہ نظر نہیں آیا
غزل کے کوزے میں دریا نظر نہیں آیا
امیرِ شہر کے گھر نوادرات تو تھے
پرانے وقت کا کاسہ نظر نہیں آیا
منافقوں نے دکھائی تھی جو تری تصویر
تجھے جو دیکھا تو ویسا نظر نہیں آیا
تمہارے عشق میں ڈوبا تو پار بھی اترا
مجھے وہ آگ کا دریا نظر نہیں آیا
ہمارے چہرے پہ چادر اسی نے ڈالی تھی
پھر اس کے بعد مسیحا نظر نہیں آیا
کھڑا تھا پنجوں کے بل پر ہجوم میں راشد
مگر کہیں بھی وہ اونچا نظر نہیں آیا
راشد عارفی
No comments:
Post a Comment