یار دو چار سے اُلجھتے ہیں
آپ تو سنسار سے الجھتے ہیں
بُغضِ صدیقؓ میں وہاں کچھ لوگ
آج بھی غار سے الجھتے ہیں
ان کی الجھن کا حل نہیں کوئی
جو مِرے یار سے الجھتے ہیں
منتیں مانتے نہیں تھکتے
اور دربار سے الجھتے ہیں
تم قصیدے پڑھو امیروں کے
ہم تو زردار سے الجھتے ہیں
اپنی حرکت پہ غور کرتے نہیں
میرے کردار سے الجھتے ہیں
ظُلمتوں کا یہی نتیجہ ہے
پھُول بھی خار سے الجھتے ہیں
آپ یہ جانتے نہیں شاید
آپ دیوار سے الجھتے ہیں
آپ کو علم نہیں ہے شاید
آپ دیوار سے الجھتے ہیں
ان کی اوقات کیا کہ وہ جُھوٹے
اِبنِ کرّارؑ سے الجھتے ہیں
امین فاروقی
No comments:
Post a Comment