Saturday, 12 April 2025

عاشق کی آہ و زاری پہ نالوں پہ ٹیکس ہو

  زعفرانی کلام ٹیکس


عاشق کی آہ و زاری پہ نالوں پہ ٹیکس ہو

سب مہ وشوں پہ ماہ جمالوں پہ ٹیکس ہو

گر زلف تا کمر ہو تو بالوں پہ ٹیکس ہو

ہو اگر سرخ سرخ گال تو گالوں پہ ٹیکس ہو

ہو قاتلانہ چال تو پیسے ادا کرو

ورنہ جہاں پڑے ہو وہیں پر پڑے رہو

اپنوں پہ اور پرایوں پے آئے گئے پہ ٹیکس

ہر ذائقے پہ ٹیکس ہے ہرہر مزے پہ ٹیکس

پوری کباب قور مے اور کوفتے پہ ٹیکس

جیتے جیے پہ ٹیکس ہے مرتے مرے پہ ٹیکس

کانٹوںپہ جب قبائیے چمن ٹانگنے لگے

اہل چمن خزاں کی دعا مانگنے لگے

غمزوں کی دل فریبی پہ اور دل لگی پہ ٹیکس

بے مائیگی پہ ٹیکس ہے او ر مفلسی پہ ٹیکس

بے چارگی پہ ٹیکس ہے اور بے بسی پہ ٹیکس

ان ٹیکسوں پہ جو ہنسے اس کی ہنسی پہ ٹیکس

دلہا دلہن کے پاس جو جائے تو دے رقم

کتنے حسین ٹیکس ہیں اﷲ کی قسم

عاشق کا اس زمانے میں وہ پتلا حال ہے

اب مفلسی میں عشق بھی کرنا محال ہے

کوچے میں اس کے ٹیکس کا ٹیڑھا سوال ہے

مرنا بغیر ٹیکس کس کی مجال ہے

مردہ پڑا رہے گا نہ دفنایا جائے گا

پروانہ لکھ کے ٹیکس کا جب تک نہ آئے گا


فرقت کاکوروی

غلام احمد فرقت

No comments:

Post a Comment