Wednesday, 30 April 2025

نقش وہ آنکھ میں اترا تھا کہ جاتا ہی نہ تھا

 نقش وہ آنکھ میں اترا تھا کہ جاتا ہی نہ تھا

میں نے اس دھوپ کو ڈھلتے کہیں دیکھا ہی نہ تھا

روح کی پیاس بجھائے نہ بجھے گی کسی ڈھنگ

مجھ کو اس دشت کی پہنائی میں اگنا ہی نہ تھا

پہلے اس گھر کی ہر اک کھڑکی کھلی رہتی تھی

یوں ملا کرتے تھے جیسے کوئی پردا ہی نہ تھا

اب جو انسان ہواؤں میں اڑا پھرتا ہے

یہ کبھی پیڑ کے سائے سے نکلتا ہی نہ تھا

دوڑ پڑتا تھا جہاں ریت سے جلتے تھے قدم

ساتھ دریا تھا مگر ڈر سے اترتا ہی نہ تھا

ایسی سردی میں وہاں جا کے کہاں سستائے

پار ندی کے کوئی دھوپ کا خیمہ ہی نہ تھا

رات کا پیڑ اگا تھا کہ کوئی سایہ تھا

کیا کہوں ہاتھ لگا کر اسے دیکھا ہی نہ تھا

کتنے آزاد تھے برسات کے خود رو نالے

اپنی دنیا تھی کوئی پوچھنے والا ہی نہ تھا

حادثہ ایسا بھی پیش آئے گا مر جاؤں گا

خواب ایسا تو کبھی عمر میں دیکھا ہی نہ تھا

شاعری نے مجھے انسان بنایا ہے خلیل

میں وہ شیشہ تھا کہ دنیا سے چمکتا ہی نہ تھا


خلیل رامپوری

No comments:

Post a Comment