Monday, 14 April 2025

حاکم وقت کے اقبال سے کیا کیا نہ ہوا

 حاکم وقت کے اقبال سے کیا کیا نہ ہوا

دل کے زخموں کا اگر کوئی مداوا نہ ہوا

سر پٹکتے ہی پھرے راہ کی تنہائی میں

اہلِ فن کے لیے دروازہ کوئی وا نہ ہوا

ظلمتِ شب میں کوئی راہبری کیا کرتا

ایک تارا بھی سرِ عرش ہمارا نہ ہوا

میں تو اک ابر کا ٹکڑا ہوں کہ سب کے غم میں

میرا سایہ بھی مِرے واسطے سایہ نہ ہوا

شہر کے غم میں پلٹ آیا ہوں ویرانوں سے

شوق بھی اپنا بہ اندازۂ صحرا نہ ہوا

اپنے احساسِ ستم ہی کی قسم ہے ہم کو

ہم نے دروازہ ہی توڑا ہے اگر وا نہ ہوا

دوسروں کے لیے مرنا ہی مسیحائی ہے

گرچہ اس عہد میں اس طرح سے جینا نہ ہوا

دوپہر زندگی دھوپوں میں جو تپتی ہی رہی

ایک کانٹا ہے کہ جس کا کوئی سایہ نہ ہوا

رنگ و ملت کا مجھے ہوش کہاں ہے انور

میں تو خوشبوئے محبت سے ہوں دیوانہ ہوا


عشرت انور

No comments:

Post a Comment