حاکم وقت کے اقبال سے کیا کیا نہ ہوا
دل کے زخموں کا اگر کوئی مداوا نہ ہوا
سر پٹکتے ہی پھرے راہ کی تنہائی میں
اہلِ فن کے لیے دروازہ کوئی وا نہ ہوا
ظلمتِ شب میں کوئی راہبری کیا کرتا
ایک تارا بھی سرِ عرش ہمارا نہ ہوا
میں تو اک ابر کا ٹکڑا ہوں کہ سب کے غم میں
میرا سایہ بھی مِرے واسطے سایہ نہ ہوا
شہر کے غم میں پلٹ آیا ہوں ویرانوں سے
شوق بھی اپنا بہ اندازۂ صحرا نہ ہوا
اپنے احساسِ ستم ہی کی قسم ہے ہم کو
ہم نے دروازہ ہی توڑا ہے اگر وا نہ ہوا
دوسروں کے لیے مرنا ہی مسیحائی ہے
گرچہ اس عہد میں اس طرح سے جینا نہ ہوا
دوپہر زندگی دھوپوں میں جو تپتی ہی رہی
ایک کانٹا ہے کہ جس کا کوئی سایہ نہ ہوا
رنگ و ملت کا مجھے ہوش کہاں ہے انور
میں تو خوشبوئے محبت سے ہوں دیوانہ ہوا
عشرت انور
No comments:
Post a Comment