Tuesday, 22 April 2025

کبھی فراق ستمگر میں زندگانی کی

 کبھی فراق ستمگر میں زندگانی کی

کبھی حیات کی اشکوں نے ترجمانی کی

کبھی حیات پہ چھایا سکوت زخموں کا

کبھی خبر نہ ہوئی مرگِ ناگہانی کی

ہے اضطراب عجب دل کے بالا خانے میں

جھلک نگاہ میں پائی گئی ہے پانی کی

وہ آشیانہ بنا لے گا شاخِ نازک پر

کہیں جو طائرِ ناداں نے خوشگمانی کی

ثبوت خود یہ فراہم کرے گا وقت کبھی

یقین کس نے کیا، کس نے بدگمانی کی

یہ کارِ خیر بھی انجام دے گیا منصف

چمن کی ورنہ یہاں کس نے پاسبانی کی


نوشاد منصف

No comments:

Post a Comment