کبھی فراق ستمگر میں زندگانی کی
کبھی حیات کی اشکوں نے ترجمانی کی
کبھی حیات پہ چھایا سکوت زخموں کا
کبھی خبر نہ ہوئی مرگِ ناگہانی کی
ہے اضطراب عجب دل کے بالا خانے میں
جھلک نگاہ میں پائی گئی ہے پانی کی
وہ آشیانہ بنا لے گا شاخِ نازک پر
کہیں جو طائرِ ناداں نے خوشگمانی کی
ثبوت خود یہ فراہم کرے گا وقت کبھی
یقین کس نے کیا، کس نے بدگمانی کی
یہ کارِ خیر بھی انجام دے گیا منصف
چمن کی ورنہ یہاں کس نے پاسبانی کی
نوشاد منصف
No comments:
Post a Comment