کبھی دوستی کی باتیں کبھی دشمنی کی باتیں
وہی زندگی ہے یارو! وہی زندگی کی باتیں
وہی رہبروں کے جمگھٹ وہی بھیڑ رہزنوں کی
وہی کارواں ہیں غم کے، وہی گمرہی کی باتیں
کبھی چھیڑ اے مغنی! کوئی کیف زا ترانہ
میں ازل سے سن رہا ہوں غمِ عاشقی کی باتیں
کبھی جس سے ہم ملے تھے غمِ زندگی بُھلا کر
چلو آج پھر کریں ہم، اسی چاندنی کی باتیں
نئے دور میں ابھی تک وہی سلسلہ ہے جاری
وہی ذکرِ جام و مِینا، وہی شیخ جی کی باتیں
مجھے دیکھ کر وہ بولے؛ بڑی عمر آپ کی ہے
سبھی لوگ کر رہے تھے ابھی آپ ہی کی کی باتیں
جسے ڈھونڈتی ہے دنیا جسے ڈھونڈتے ہیں انساں
چلو اے کنول! کریں پھر اسی روشنی کی باتیں
ڈی راج کنول
پنڈت دیس راج شرما
No comments:
Post a Comment