لوگ جو گردش ایام سے ڈر جاتے ہیں
موت سے پہلے ہی سمجھو کہ وہ مر جاتے ہیں
یہ جو کچھ لوگ کہ طوفاں سے ڈراتے ہیں ہمیں
سرسراہٹ سے یہ پتوں کی بھی ڈر جاتے ہیں
جس کو دیکھو وہ حراساں ہے یہاں اپنوں سے
شکر ہے شام کو سب اپنے ہی گھر جاتے ہیں
اب کے کرنا ہے ہمیں ترک تعلق میں پہل
ہم یہ کہتے ہیں فقط آپ تو کر جاتے ہیں
اک تِرا غم تھا جسے ہم نے سنبھالا ہر دم
ورنہ طوفان سے تنکے تو بکھر جاتے ہیں
ان کا دعویٰ ہے کہ سورج کو کریں گے تسخیر
جو یہاں شام کے جگنوں سے بھی ڈر جاتے ہیں
محسن ساحل
No comments:
Post a Comment