Monday, 21 April 2025

حرف غزل کو درد میں ڈھلتے ہوئے بھی دیکھ

 حرف غزل کو درد میں ڈھلتے ہوئے بھی دیکھ

شہر سخن کی شمع پگھلتے ہوئے بھی دیکھ

خوشبو کے چند پھولوں کی ناکام آرزو

شہر وفا کی آگ میں جلتے ہوئے بھی دیکھ

جھلسے ہوئے خیال کے صحرا میں ڈوب جا

ذروں کی تہہ میں تشنگی جلتے ہوئے بھی دیکھ

قدموں کے خار بوجھ تھے دنیا ترے لیے

پیروں بغیر آج اسے چلتے ہوئے بھی دیکھ

معصوم بیوی بچوں کے لب کی ہنسی کو آج

غم کی قبائے زرد میں ڈھلتے ہوئے بھی دیکھ

دلہن بنیں گی بہنیں یہ حسرت لیے ہوئے

اس کا جنازہ گھر سے نکلتے ہوئے بھی دیکھ


رشید افروز

No comments:

Post a Comment