حرف غزل کو درد میں ڈھلتے ہوئے بھی دیکھ
شہر سخن کی شمع پگھلتے ہوئے بھی دیکھ
خوشبو کے چند پھولوں کی ناکام آرزو
شہر وفا کی آگ میں جلتے ہوئے بھی دیکھ
جھلسے ہوئے خیال کے صحرا میں ڈوب جا
ذروں کی تہہ میں تشنگی جلتے ہوئے بھی دیکھ
قدموں کے خار بوجھ تھے دنیا ترے لیے
پیروں بغیر آج اسے چلتے ہوئے بھی دیکھ
معصوم بیوی بچوں کے لب کی ہنسی کو آج
غم کی قبائے زرد میں ڈھلتے ہوئے بھی دیکھ
دلہن بنیں گی بہنیں یہ حسرت لیے ہوئے
اس کا جنازہ گھر سے نکلتے ہوئے بھی دیکھ
رشید افروز
No comments:
Post a Comment