Friday, 18 April 2025

عشق محتاط رہا وہ بھی اس انداز کے ساتھ

 عشق محتاط رہا وہ بھی اس انداز کے ساتھ

سانس تک اس نے نہیں لی کسی ہمراز کے ساتھ

دشمنوں میں بھی رہوں میں تو قباحت کیا ہے

دوست بھی ملتے ہیں مجھ سے اسی انداز کے ساتھ

اس کے تاروں پہ رکھیں انگلیاں تو نے شاید

کیف کو ایسا نہیں ربط کسی ساز کے ساتھ

مدتوں میں نے تصور میں پکارا ہے تجھے

عشق مشروط نہیں ہے کسی آواز کے ساتھ

میری الفت نے دیا حسن کا احساس انہیں

آئینہ دیکھ رہے ہیں وہ بڑے ناز کے ساتھ

اس کو بھی کیفیتِ دل کا تنیجہ کہیے

حسنِ نغمہ نہیں منسوب کسی ساز کے ساتھ

کس کی آواز ہے یہ تو نہیں معلوم مگر

دل کھنچا جاتا ہے کوثر کسی آواز کے ساتھ


کوثر نقوی

No comments:

Post a Comment