عشق محتاط رہا وہ بھی اس انداز کے ساتھ
سانس تک اس نے نہیں لی کسی ہمراز کے ساتھ
دشمنوں میں بھی رہوں میں تو قباحت کیا ہے
دوست بھی ملتے ہیں مجھ سے اسی انداز کے ساتھ
اس کے تاروں پہ رکھیں انگلیاں تو نے شاید
کیف کو ایسا نہیں ربط کسی ساز کے ساتھ
مدتوں میں نے تصور میں پکارا ہے تجھے
عشق مشروط نہیں ہے کسی آواز کے ساتھ
میری الفت نے دیا حسن کا احساس انہیں
آئینہ دیکھ رہے ہیں وہ بڑے ناز کے ساتھ
اس کو بھی کیفیتِ دل کا تنیجہ کہیے
حسنِ نغمہ نہیں منسوب کسی ساز کے ساتھ
کس کی آواز ہے یہ تو نہیں معلوم مگر
دل کھنچا جاتا ہے کوثر کسی آواز کے ساتھ
کوثر نقوی
No comments:
Post a Comment