تم جو کہہ دیتے ہو وہ حُکمِ خُدا ہوتا ہے
منہ سے جو میرے نکلتا ہے گِلہ ہوتا ہے
حُسن جب بھی کبھی مائل بہ وفا ہوتا ہے
عشق آمادۂ بے داد و جفا ہوتا ہے
یہ ہے دُنیا جسے چاہے بنا دے اے دوست
فطرتاً کوئی بھلا اور نہ بُرا ہوتا ہے
ڈُوب بھی جاتے ہیں اوروں کو ڈبونے والے
خُود بھی صیّاد کبھی صیدِ بلا ہوتا ہے
اوج میں دخلِ مقدر بھی ہے ورنہ اے نور
لاکھ کوشش کرے انسان تو کیا ہوتا ہے
نور منیری
قاضی عمر ابراہیم
No comments:
Post a Comment