بیٹی
پوچھتے کیا ہو جانتے ہو تم
بیٹی تو چاند سے اترتی ہے
ساری خنکی سمیٹ لاتی ہے
نرمی و خوش روی کے جھونکوں سے
حجر بھی موم ہوتا جاتا ہے
کوئی پازیب سے چھنکتی ہے
جب وہ خوش ہو کے مسکراتی ہے
بیٹی تو بادلوں پہ چلتی ہے
بیٹی تو خوشبوئیں اڑاتی ہے
نقشِ کہنہ میں رنگ بھرتی ہے
نسلِ آدم کی آفریشن میں
اپنی جاں تک نثار کرتی ہے
پیش اپنے شعار کرتی ہے
پوچھتے کیا ہو جانتے ہو تم
ہاں وہی سبزیوں سی بکتی ہے
ہاں وہی روز ننگی ہوتی ہے
گھونٹی جاتی ہے اس کی ہی گردن
ناز نفرت میں وہ جھلستی ہے
شیشۂ آبرو بچانے کو
باپ سے، بھائی سے بھی ڈرتی ہے
قتل ناموس کا حدف ہے وہی
سنسکاروں کی اونچی ویدی پر
اس کا کومل بدن لٹکتا ہے
قابل معافی اک خطا بھی نہیں
کل کا خمیازہ وہ اٹھاتی ہے
زندگی حبس میں بتاتی ہے
پوچھتے کیا ہو جانتے ہو تم
آہن اب ہو گیا ہے زنگ آلود
بیڑیاں خود ہی کھلتی جاتی ہیں
کھل گئے ہیں قفس کے دروازے
ننھی چڑیا اڑان بھرتی ہے
اب پتنگیں ہوا میں مرضی سے
رنگ اپنے بکھیرنا چاہیں
ڈور ڈھیلی نہ کی گئی تو اثر
مانجھا کٹ جائے گا لٹائی سے
آندھی رکتی نہیں دُہائی سے
چاہ کی اور امنگ کی گرہیں
صدہا نیرنگیاں دکھاتی ہے
مشکلیں حوصلے بڑھاتی ہیں
پوچھتے کیا ہو جانتے ہو تم
مرغوب اثر فاطمی
No comments:
Post a Comment