اپنی نفرت کو جو زنجیر نہیں کر سکتے
وہ کبھی خواب کو تعبیر نہیں کر سکتے
فیصلے وقت ہی تحریرکیا کرتا ہے
آپ چاہیں بھی تو تحریر نہیں کر سکتے
بس یہی بات بنی اپنی تباہی کا سبب
اپنے جذبات کو تصویر نہیں کر سکتے
آپ سچے ہیں اگر آپ کا دعویٰ ہے تو کیوں
ایسی سچائی کی تشہیر نہیں کر سکتے
فاتحِ شہرِ جنوں! یاد رہے بات مِری
حوصلوں کو کبھی زنجیر نہیں کر سکتے
حکم آیا ہے مسیحائے محبت کا ظہور
زخم کھاتے رہو تدبیر نہیں کر سکتے
ظہورالاسلام جاوید
No comments:
Post a Comment