جستجو رہتی ہے اس کی وہ مگر ملتا نہیں
منزلیں مل جاتی ہیں، پر ہمسفر ملتا نہیں
دشمنوں کی دشمنی میں بھی کہاں وہ رکھ رکھاؤ
دوستوں کی بھی دعاؤں میں اثر ملتا نہیں
جانے کیسے لوگ تھے وہ جن کو دنیا مل گئی
ہم کو اس دیوانگی میں اپنا گھر ملتا نہیں
دل تڑپتا ہی نہیں اب یار کے دیدار کو
کیا عجب ہے پھر کہ چارہ گر ملتا نہیں
دنیا کا نقشہ ہو وہ یا دل کی دنیا ہو سلیل
خود بنانا پڑتا ہے، سُکھ کا نگر ملتا نہیں
کلدیپ سلیل
No comments:
Post a Comment