عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کب کوئی درِ شاہ پہ تدبیر سے پہنچا
پہنچا تو فقط خوبئ تقدیر سے پہنچا
ہر گوشۂ آفاق میں پیغامِ صداقت
اے افصحِ عالم! تِری تقریر سے پہنچا
اس پر بھی تِرا فیضِ اتم جھوم کے برسا
تشنہ جو تِری بزم میں تاخیر سے پہنچا
اے موجِ کرم! دائرۂِ حسنِ عمل تک
آ مجھ کو بچا کر زدِ تقصیر سے پہنچا
تھا شدتِ آزار سے دو چار دلِ زار
آرام تِرے نام کی تاثیر سے پہنچا
جنت میں گیا آپ کی توقیر سے کوئی
دوزخ میں کوئی آپ کی تحقیر سے پہنچا
پہنچا جو سرِ منزلِ مقصود بلاریب
نقشِ قدمِ شاہ کی تنویر سے پہنچا
یہ حال ہوا دورئ اسلام سے رضوی
کیا کیا نہ ضرر دہر کی تعزیر سے پہنچا
نورالہدیٰ رضوی
No comments:
Post a Comment