Wednesday, 9 April 2025

آباد اسی سے ہے ویرانہ محبت کا

 آباد اسی سے ہے ویرانہ محبت کا

ہشیاروں سے بڑھ کر ہے دیوانہ محبت کا

وہ رس بھری آنکھیں ہیں مے خانہ محبت کا

چلتا ہے نگاہوں سے پیمانہ محبت کا

اللہ نے بخشی ہے کیا نشو و نما اس کو

سو خِرمنِ ہستی ہے اک دانہ محبت کا

تم جور و جفا کر لو ہم مہر و وفا کر لیں

پورا بھی تو ہو جائے افسانہ محبت کا

ساقی جو نہ دے بادہ شکوہ نہیں کر سکتے

ہو ظرف تو ملتا ہے پیمانہ محبت کا

جبریل کے شہپر بھی پرواز سے رہ جائیں

ہے عرش سے بھی اونچا کاشانہ محبت کا

اس بزم کی مستی کیوں بڑھ کر نہ رہے ثاقب

مخمور نے رکھا ہے پیمانہ محبت کا


ثاقب عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment