آباد اسی سے ہے ویرانہ محبت کا
ہشیاروں سے بڑھ کر ہے دیوانہ محبت کا
وہ رس بھری آنکھیں ہیں مے خانہ محبت کا
چلتا ہے نگاہوں سے پیمانہ محبت کا
اللہ نے بخشی ہے کیا نشو و نما اس کو
سو خِرمنِ ہستی ہے اک دانہ محبت کا
تم جور و جفا کر لو ہم مہر و وفا کر لیں
پورا بھی تو ہو جائے افسانہ محبت کا
ساقی جو نہ دے بادہ شکوہ نہیں کر سکتے
ہو ظرف تو ملتا ہے پیمانہ محبت کا
جبریل کے شہپر بھی پرواز سے رہ جائیں
ہے عرش سے بھی اونچا کاشانہ محبت کا
اس بزم کی مستی کیوں بڑھ کر نہ رہے ثاقب
مخمور نے رکھا ہے پیمانہ محبت کا
ثاقب عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment