رونقوں پر ہیں بہاریں ترے دیوانوں سے
پھول ہنستے ہوئے نکلے ہیں نہاں خانوں سے
لاکھ ارمانوں کے اجڑے ہوئے گھر ہیں دل میں
یہ وہ بستی ہے کہ آباد ہے ویرانوں سے
لالہ زاروں میں جب آتی ہیں بہاریں ساقی
آگ لگ جاتی ہے ظالم ترے پیمانوں سے
اب کوئی دیر میں الفت کا طلب گار نہیں
اٹھ گئی رسم وفا ہائے صنم خانوں سے
پاس آتے گئے جس درجہ بیابانوں کے
دور ہوتے گئے ہم اور بیابانوں سے
اب کے ہمراہ گزاریں گے جنوں کا موسم
دامنوں کی یہ تمنا ہے گریبانوں سے
اس زمانے کے وہ مے نوش وہ بدمست ہیں ہم
پارسا ہو کے نکلتے ہیں جو مے خانوں سے
پھر بہار آئی جنوں خیز ہوائیں لے کر
پھر بلاوے مجھے آتے ہیں بیابانوں سے
خاک کس مست محبت کی ہے ساقی ان میں
کہ مجھے بوئے وفا آتی ہے پیمانوں سے
غیر کی موت پہ وہ روتے ہیں اور ہم افسر
زہر پیتے ہیں چھلکتے ہوئے پیمانوں سے
افسر میرٹھی
No comments:
Post a Comment