Sunday, 6 April 2025

رونقوں پر ہیں بہاریں ترے دیوانوں سے

 رونقوں پر ہیں بہاریں ترے دیوانوں سے

پھول ہنستے ہوئے نکلے ہیں نہاں خانوں سے

لاکھ ارمانوں کے اجڑے ہوئے گھر ہیں دل میں

یہ وہ بستی ہے کہ آباد ہے ویرانوں سے

لالہ زاروں میں جب آتی ہیں بہاریں ساقی

آگ لگ جاتی ہے ظالم ترے پیمانوں سے

اب کوئی دیر میں الفت کا طلب گار نہیں

اٹھ گئی رسم وفا ہائے صنم خانوں سے

پاس آتے گئے جس درجہ بیابانوں کے

دور ہوتے گئے ہم اور بیابانوں سے

اب کے ہمراہ گزاریں گے جنوں کا موسم

دامنوں کی یہ تمنا ہے گریبانوں سے

اس زمانے کے وہ مے نوش وہ بدمست ہیں ہم

پارسا ہو کے نکلتے ہیں جو مے خانوں سے

پھر بہار آئی جنوں خیز ہوائیں لے کر

پھر بلاوے مجھے آتے ہیں بیابانوں سے

خاک کس مست محبت کی ہے ساقی ان میں

کہ مجھے بوئے وفا آتی ہے پیمانوں سے

غیر کی موت پہ وہ روتے ہیں اور ہم افسر

زہر پیتے ہیں چھلکتے ہوئے پیمانوں سے


افسر میرٹھی

No comments:

Post a Comment