بیتے ہوئے لمحات طرب پوچھ رہے ہیں
گُزری تھی کہاں اپنی وہ شب پوچھ رہے ہیں
کب تک میں چھپاؤں گا زمانے کی نظر سے
اب لوگ اُداسی کا سبب پوچھ رہے ہیں
کیا تم پہ بھی گزرا تھا یونہی نزع کا عالم
ہم لوگ جو ہیں جان بہ لب پوچھ رہے ہیں
جس جس کو ملا مجھ سے ملا مانگے بنا ہی
صد حیف کہ وہ میری طلب پوچھ رہے ہیں
ممکن ہے کہ ہو قُرب قیامت کی نشانی
کم ذات بھی اب نام و نسب پوچھ رہے ہیں
ہم کو تو کبھی جینے کا آیا نہ قرینہ
اور پھر بھی یہ آرام طلب پوچھ رہے ہیں
تم خود ہی بتا دو کہ مجھے کیا نہیں کہنا
یہ پوچھنے والے ہیں کہ سب پوچھ رہے ہیں
ماضی میں گُزارے ہوئے لمحات سکوں کے
کیسا ہے مچا شور و شغب پوچھ رہے ہیں
جس بات کو بیتے ہوئے گزرا ہے زمانہ
اس بات کی بابت مجھے اب پوچھ رہے ہیں
یہ ناز و ادا، عشوہ و غمزہ و ادائیں
تم نے بھی تو ڈھایا تھا غضب پوچھ رہے ہیں
جو خود بھی کبھی میری ہی رہ کے تھے مسافر
وہ بھی تو صبا! باتیں عجب پوچھ رہے ہیں
سبکتگین صبا
No comments:
Post a Comment