کہیں عزت کہیں انساں نے شرافت بیچی
کہیں کردار کو بیچا کہیں سیرت بیچی
آج انسان نے اجداد کی عظمت بیچی
اور پردے میں کہیں عصمت و عفت بیچی
اس سے بڑھ کر بھی ہے ذلت کی کوئی حد یارو
بیچ ڈالے کہیں اسلاف کے مرقد یارو
اہل ایماں میں وہ ایماں کی حرارت نہ رہی
حافظ و قاری کی بے لوث تلاوت نہ رہی
مولوی رہ گئے لیکن وہ امانت نہ رہی
قاضئ شہر کے بھی پاس شریعت نہ رہی
یہ عبائیں یہ قبائیں یہ عمامے لے لو
چاہے جس بھاؤ بھی بازار سے فتوے لے لو
ہوس جاہ میں منصب کے طلبگار ہوئے
اپنوں کے واسطے ہی در پئے آزار ہوئے
بھائی پر ایسی نظر جیسے کہ خونخوار ہوئے
جس سے ہم ڈرتے ہیں بس اس کے طرفدار ہوئے
صرف کرسی کے لئے رال بھی ٹپکاتے ہیں
عہدہ مل جائے کوئی اس پہ مرے جاتے ہیں
عظیم امروہوی
No comments:
Post a Comment