میں اپنی ذات میں تنہا
میں اپنی ذات میں تنہا
سبھی ہیں دوست میرے پر
نہیں ہے چارہ گر کوئی
میں اپنی ذات میں تنہا
کسے دیکھوں، کسے ڈھونڈوں
یہاں ہر سمت ویرانی
کہ دشتِ زیست میں شاید
نہیں حدِ نظر کوئی
میں اپنی ذات میں تنہا
سناؤں کس کو حالِ دل
یہاں ہر ایک گریزاں ہے
کاش سن سکتے میری بات
یہاں شجر و ہجر کوئی
میں اپنی ذات میں تنہا
اداسی کا سمندر ہے
تلاطم خیز موجیں ہیں
بہا لے جائے نہ مجھ کو
سمندر کا بھنور کوئی
میں اپنی ذات میں تنہا
تمہارے بعد کتنے لوگ
دستک دینے آئے ہیں
سبھی تم جیسے لگتے ہیں
نہیں تم سا مگر کوئی
میں اپنی ذات میں تنہا
یہ پاؤں آبلہ پائیں
تھکن سے چُور ہے جاں بھی
کیا اپنا آپ پانے کو
کرے ایسا سفر کوئی
میں اپنی ذات میں تنہا
خدا کا اک سہارا ہے
خدا ہی بس ہمارا ہے
کریں گے ہم دعائیں بھی
اگرچہ ہو اثر کوئی
میں اپنی ذات میں تنہا
حنا رئیس
No comments:
Post a Comment