جلا کر اپنا گھر بالک گیا ہے
لیے جو ہاتھ میں دیپک گیا ہے
سفر اب ختم ہونے کو ہے شاید
مسافر چلتے چلتے تھک گیا ہے
کریں گے فیصلہ اہلِ خرد یہ
جنوں میں کون کیا کیا بک گیا ہے
برہنہ لاش جو باہر پڑی ہے
کوئی چادر سے اس کو ڈھک گیا ہے
چمن اندر چمن ہے ذکر اس کا
جو خوشبو بن کے صحرا تک گیا ہے
کسی دن دیکھ لینا کر پڑے گا
ثمر جو شاخ پر اب پک گیا ہے
کھلیں گے راز ہائے ماہ و انجم
ابھی تو چاند پر بالک گیا ہے
عدم آباد سے صدیق کوئی
کہاں لوٹا ہے جو اب تک گیا ہے
محمد صدیق فتحپوری
No comments:
Post a Comment