Thursday, 10 April 2025

جلا کر اپنا گھر بالک گیا ہے

 جلا کر اپنا گھر بالک گیا ہے

لیے جو ہاتھ میں دیپک گیا ہے

سفر اب ختم ہونے کو ہے شاید

مسافر چلتے چلتے تھک گیا ہے

کریں گے فیصلہ اہلِ خرد یہ

جنوں میں کون کیا کیا بک گیا ہے

برہنہ لاش جو باہر پڑی ہے

کوئی چادر سے اس کو ڈھک گیا ہے

چمن اندر چمن ہے ذکر اس کا

جو خوشبو بن کے صحرا تک گیا ہے

کسی دن دیکھ لینا کر پڑے گا

ثمر جو شاخ پر اب پک گیا ہے

کھلیں گے راز ہائے ماہ و انجم

ابھی تو چاند پر بالک گیا ہے

عدم آباد سے صدیق کوئی

کہاں لوٹا ہے جو اب تک گیا ہے


محمد صدیق فتحپوری

No comments:

Post a Comment