Thursday, 10 April 2025

ساحلوں کا بھی نہ احساں تھا گوارا مجھ کو

 ساحلوں کا بھی نہ احساں تھا گوارا مجھ کو

اتنا دریا کے تلاطم نے سنوارا مجھ کو

پیاس ایسی ہے کہ اندر سے سُلگتا ہے بدن

اور پانی کے سوا کچھ نہیں چارا مجھ کو

اب تو دامن کو لپکتے ہیں لہو کے شعلے

اور پکارے ہے کہیں خون کا دھارا مجھ کو

خوں بہا لے کے ابھی خیر سے پلٹے بھی نہ تھے

مقتل خوف میں پھر کس نے پکارا مجھ کو

پاسداری کی جڑیں میں نے ہلا کر رکھ دیں

وہ سمجھتے تھے فقط اینٹ اور گارا مجھ کو

اجنبی شہر کی بے گانہ مزاجی کے خلاف

میرے سائے نے دیا کتنا سہارا مجھ کو

درد ہی درد کماتے ہو مگر کہتے ہو

عشق کے کھیل میں ہوتا ہے خسارہ مجھ کو

سرمئ شام کے چہرے پہ حیا کا آنچل

اچھا لگتا ہے بہت ایسا نظارہ مجھ کو

میں تو جگنو کی طرح شب میں پریشاں حیراں

رات بھی کہتی ہے آوارہ ستارہ مجھ کو


منتظر قائمی

No comments:

Post a Comment