ساحلوں کا بھی نہ احساں تھا گوارا مجھ کو
اتنا دریا کے تلاطم نے سنوارا مجھ کو
پیاس ایسی ہے کہ اندر سے سُلگتا ہے بدن
اور پانی کے سوا کچھ نہیں چارا مجھ کو
اب تو دامن کو لپکتے ہیں لہو کے شعلے
اور پکارے ہے کہیں خون کا دھارا مجھ کو
خوں بہا لے کے ابھی خیر سے پلٹے بھی نہ تھے
مقتل خوف میں پھر کس نے پکارا مجھ کو
پاسداری کی جڑیں میں نے ہلا کر رکھ دیں
وہ سمجھتے تھے فقط اینٹ اور گارا مجھ کو
اجنبی شہر کی بے گانہ مزاجی کے خلاف
میرے سائے نے دیا کتنا سہارا مجھ کو
درد ہی درد کماتے ہو مگر کہتے ہو
عشق کے کھیل میں ہوتا ہے خسارہ مجھ کو
سرمئ شام کے چہرے پہ حیا کا آنچل
اچھا لگتا ہے بہت ایسا نظارہ مجھ کو
میں تو جگنو کی طرح شب میں پریشاں حیراں
رات بھی کہتی ہے آوارہ ستارہ مجھ کو
منتظر قائمی
No comments:
Post a Comment