Friday, 11 April 2025

ہو سمندر کے اگر پار کہاں ممکن ہے

  زعفرانی کلام


 ہو سمندر کے اگر پار کہاں ممکن ہے

یومِ سسرال پہ انکار کہاں ممکن ہے

میکے تو آج نہیں کل نہیں پرسوں جانا

بیوی کے آگے یہ تکرار کہاں ممکن ہے

بیویوں والے تو جاتے ہیں عقیدت لے کر

چھوڑ کے جائیں یہ دربار کہاں ممکن ہے

عید کے عید بُلائیں نہ بُلائیں لیکن

تم نہ جاؤں یہ مِرے یار کہاں ممکن ہے

مجھ کو بیگم کی کزن پیاری لگی ہے لیکن

سامنے اس کے یہ اقرار کہاں ممکن ہے

ہوں وفادار ہمیشہ سے سگی بیگم کا

کوئی اور ہو مِری حقدار کہاں ممکن ہے

اپنے سسرال سے گو اندھی عقیدت ہے مجھے

ان کے کتوں سے بھی ہو پیار کہاں ممکن ہے


بے باک ڈیروی

ظریف ببر

No comments:

Post a Comment