Tuesday, 8 April 2025

ستم دوست کا گلہ کیا ہے

 ستم دوست کا گلہ کیا ہے

سنبھل اے دل تجھے کہا کیا ہے

نگہ ناز کو نہ دو تکلیف

دل میں اب یاس کے سوا کیا ہے

جس کو مرنے کی بھی امید نہ ہو

اس کی حسرت کو پوچھنا کیا ہے

یوں ہی انجام بن کے پھر پوچھو

مجھ سے تم میرا مدعا کیا ہے

سامنے ہے وہ جلوۂ رنگیں

یہ فریب نظر ہے یا کیا ہے

جی اٹھے اب بھی تم جو آ جاؤ

ورنہ بیمار میں رہا کیا ہے


ظفر احمد صدیقی

No comments:

Post a Comment