Monday, 7 April 2025

بحر دقیانوسیت زبانی جنگ کی کیسی ہے فطرت

 بحر دقیانوسیت


زبانی جنگ کی کیسی ہے فطرت

سیانی، لمبی ہوتی جا رہی ہے

مُڑے گی جانے کن اندھی گلی میں

کہانی، لمبی ہوتی جا رہی ہے


شباب آیا ہے افواہوں پہ یکسر

جوانی، لمبی ہوتی جا رہی ہے

تعصب چھوڑتا ہے نقش اپنا

نشانی، لمبی ہوتی جا رہی ہے


پسِ پردہ کوئی بیٹھا ہے جس کی

نہانی، لمبی ہوتی جا رہی ہے

ہوئی کوتاہ جس کی شیروانی

میانی، لمبی ہوتی جا رہی ہے


ہوئی پرچھائیں فکرِ نو کی چھوٹی

پرانی، لمبی ہوتی جا رہی ہے

عجب ہے، بحرِ دقیانوسیت کی

روانی، لمبی ہوتی جا رہی ہے


اُڑی جاتی ہے اپنے پن کی چھتری

کمانی، لمبی ہوتی جا رہی ہے

اثر ہے جوش میں فرت کی بارش

دِوانی، لمبی ہوتی جا رہی ہے


مرغوب اثر فاطمی

No comments:

Post a Comment