مِل کتنا دُھواں اُگل رہی ہے
کس کس کی حیات جل رہی ہے
لفظوں کو حنوط کرنے والو
انسان کی لاش گل رہی ہے
مصلوب ہے پیار کا فرشتہ
نفرت کی چڑیل پل رہی ہے
پھولوں سے سجی ہوئی ہیں قبریں
کانٹوں پہ حیات چل رہی ہے
مہریں تو لبوں پر ثبت کر دیں
سینوں میں جو آگ جل رہی ہے
آئے نہ جلال کیوں افق کو
سورج کو زمیں نگل رہی ہے
ظفر ابن متین
No comments:
Post a Comment