اک جبر مستقل ہے مسلسل عذاب ہے
کہنے کو زندگی پہ غضب کا شباب ہے
پوچھا کسی نے حال تو دیوانہ رو دیا
کتنا حسین، کتنا مکمل جواب ہے
کیوں تلخیٔ حیات کا احساس ہو چلا
یارو ابھی تو رقص میں جام شراب ہے
اس عہد ارتقا میں حقیقت کے دور میں
انسان کا وجود ابھی تک سراب ہے
پائے گی کیا فروغ شب تار زندگی
پنہاں ہر ایک ذرہ میں اک آفتاب ہے
طالب یہ ایک لمحۂ عشرت کی ہے سزا
مدت سے دل رہینِ غمِ بے حساب ہے
طالب محمود
No comments:
Post a Comment