Monday, 7 April 2025

اک جبر مستقل ہے مسلسل عذاب ہے

 اک جبر مستقل ہے مسلسل عذاب ہے

کہنے کو زندگی پہ غضب کا شباب ہے

پوچھا کسی نے حال تو دیوانہ رو دیا

کتنا حسین، کتنا مکمل جواب ہے

کیوں تلخیٔ حیات کا احساس ہو چلا

یارو ابھی تو رقص میں جام شراب ہے

اس عہد ارتقا میں حقیقت کے دور میں

انسان کا وجود ابھی تک سراب ہے

پائے گی کیا فروغ شب تار زندگی

پنہاں ہر ایک ذرہ میں اک آفتاب ہے

طالب یہ ایک لمحۂ عشرت کی ہے سزا

مدت سے دل رہینِ غمِ بے حساب ہے


طالب محمود

No comments:

Post a Comment