یہ صحرا کی صر صر صبا تو نہیں ہے
گُھٹن ہے محبت ہوا تو نہیں ہے
میاں تخت والے سے کیوں ڈر رہے ہو
فقط آدمی ہے خُدا تو نہیں ہے
چراغ محبت مِرے دل میں جاناں
ابھی جل رہا ہے بُجھا تو نہیں ہے
میں اس کی بُرائی کروں کیوں خُدایا
وہ بس بے وفا ہے بُرا تو نہیں ہے
گوارہ نہیں اس کو میری جُدائی
رُتوں میں ہے شامل جُدا تو نہیں ہے
سُنو مے کدے کا وہ مجذوب عاصم
ابھی تک ہے زندہ، مرا تو نہیں ہے
عاصم ممتاز
No comments:
Post a Comment